Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

ذہنی وجسمانی تھکن سے نجات کے آسان ٹوٹکے

ماہنامہ عبقری - اگست 2015ء

ایسے افراد جو مثبت سوچ کے مالک ہوتے ہیں وہ کم تھکتے ہیں‘ ایسے لوگ زیادہ فعال، سرگرم اور خوش اخلاق ہوتے ہیں یہ لوگ اپنے اردگرد موجود لوگوں کی منفی باتوں پر دھیان نہیں دیتے بلکہ ان کے اچھے پہلوئوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان سے بات چیت کرتے ہیں

ہوسکتا ہے کہ آپ نے ایسے لوگوں کو دیکھا ہو جن کے چہرے پر کبھی تھکن کے اثرات ہی نظر نہیں آتے۔ ہر وقت چاق و چوبند، سر گرم عمل ہی نظر آتے ہیں۔ آپ ایسے لوگوں کو دیکھ کر دل میں سوچتے ہیں کہ آخر اس شخص میں ایسی کیا بات ہے جو اسے تھکنے ہی نہیں دیتی۔ اس کے ساتھ ہی دوسری جانب کچھ ایسے لوگ بھی آپ کو نظر آئیں گے جن کے چہرے پر صبح ہو‘ شام ہو، رات ہو کہ دن ہر وقت تکان غالب رہتی ہے۔ وہ اپنے گھریلو اور دفتری کاموں کو بھی اس طرح انجام دیتے ہیں گویا وہ بہت ہی مجبور ہیں۔ آخر اس کی وجوہات کیا ہیں؟ اور اس تھکن کا علاج بھی ہوسکتا ہے یا نہیں۔ ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ آپ بھی ان لوگوں میں شامل ہوسکتے ہیں جو ہشاش بشاش اور ہر وقت تاز دم نظر آتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں تھکن کی شکایت عام ہے۔ بچوں کو دیکھو کھیل کود کر آئیں گے تو تھکن کی شکایت کریں گے۔ گھر کے کام کاج گھریلو خواتین کو تھکا دیتے ہیں۔ اسی طرح مرد سفری اور دفتری تکان کا رونا روتے رہتے ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ محنت و مشقت کے بعد انسان تھکتا ہے لیکن بہت سے افراد گھر واپس آکر اگلے دن دفتر کے خیال ہی سے تھکنے لگتے ہیں اور ایسے لوگ عام طور پر چڑچڑے ہوجاتے ہیں۔ تھکن دو طرح کی ہوتی ہے۔ جسمانی اور ذہنی۔ لیکن جسم کی تھکن تو دور ہوجاتی ہے مگر ذہنی تھکن آسانی سے دور نہیں ہوتی۔ تکان کی عام وجوہات: امریکہ سمیت مغربی ملکوں میں بھی اس بات پر تحقیق کی جارہی ہے کہ تھکن کی شکایات کیوں بڑھتی جارہی ہیں۔ ہر تیسرا چوتھا فرد تھکن کی شکایت کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ آخر کیوں؟ ماہرین نے اس بات پر بہت اسٹڈی کی ہے‘ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے معمولات زندگی کا جائزہ لیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ انسان اپنی جسمانی قوت سے زیادہ کام کرکے بھی تھک جاتا ہے اور یہ تھکن فطری سی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے جسم میں ایک خاص حد تک قوت رکھی ہے۔ ہر بندہ 120 کلو گرام وزن نہیں اٹھا سکتا۔ اس طرح کی تھکن سمجھ میں آنے والی ہے اور جو لوگ زیادہ مشقت کرکے تھک جاتے ہیں انہیں اس بات کا علم بھی ہوتا ہے لیکن بعض اوقات انسان محنت و مشقت کئے بغیر بھی تھکن کا شکار محسوس کرتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ نفرت کا جذبہ بھی تھکن پیدا کرتا ہے اسی طرح غصہ، تیز روشنی، بند کمرے، غیر ہموار راستے، ناکامی کا خوف، بھوک اور پیاس کی شدت، غیر ضروری ذمہ داریاں اور مسلسل آرام بھی انسان کو تھکا دیتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کوئی بندہ تھکن کا شکار رہتا ہے تو اس سے نجات کے لئے سب سے پہلی اور بنیادی چیز یہ ہے کہ وہ اس بات کا پتہ لگائے کہ تکان کی وجہ کیا ہے۔ مغربی ماہرین نے ہر دم تازہ سرگرم اور ہشاش بشاش رہنے اور ہروقت تھکن کی شکایت کرنے والے افراد کا جائزہ لینے کے بعد چند باتوں کی طرف رہنمائی کی ہے۔ اس سے ہمیں بہت حد تک تھکن سے نمٹنے میں مدد مل سکتی ہے۔ لگی بندھی زندگی:ہر فرد اپنا ایک معمول رکھتا ہے وہ ایک خاص وقت پر اٹھتا ہے، ناشتہ کرتا ہے، تیار ہوتا ہے اور کام کاج پر روانہ ہوجاتا ہے۔ عام طور پر یہی دیکھا گیا ہے کہ اکثریت لوگوں کی ایسی ہوتی ہے جن کے معمولات بندھے ہوتے ہیں۔ روزانہ اسے ایک ہی طرز کا کام کرنا ہوتا ہے۔ اس کی ڈیٹنگ ایک ہی جیسی ہوتی ہے، دفتری کام بھی تقریباً روزانہ ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے لوگوں کوزیادہ تھکتے ہوئے دیکھا گیا ان لوگوں کے مقابلے میں جو دن میں مختلف طرح کے کام نمٹاتے ہیں۔ اسی طرح اگر آپ دفتر میں بیٹھ کر کام کرتے ہیں اور سارا دن کمپیوٹر کے سامنے گزار دیتے ہیں تو لازمی طور پر آپ تھکن کا شکار ہوں گے۔ ایک جگہ بت بن کر نہ بیٹھے رہیں، آپ جب محسوس کریں کہ تھکن ہورہی ہے تو بہتر ہے کہ کام میںتھوڑا سا وقفہ لیا جائے۔ چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے دوسروں کا سہارا نہ لیں۔ دفتری اوقات میں ایسی اشیاء زیادہ استعمال نہ کریں جن میں کیفین ہویا بانکوٹین ہو۔ اسی طرح کوشش کریں کہ مصنوعی مشروبات کی بجائے پانی استعمال کیا جائے یعنی صاف پانی۔ کام کی جگہ کا ماحول: ماحول انسان کے مزاج پر بہت گہرا اثر ڈالتا ہے۔ کسی بھی دفتر کی کارکردگی اس کے بہتر ماحول سے جڑی ہوتی ہے۔ اگر کسی دفتر کا ماحول اچھا نہیں تو اس کے کارکنان کی کارکردگی متاثر ہوگی۔ گھر ہو یا دفتر ماحول اگر خوشگوار نہیں ہے تو آپ کے مزاج پر اس کا لازمی اثر ہوگا۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر شخص کو دفتر کا ماحول ویسا ہی ملے جیسا وہ چاہتا ہے لیکن کوشش کریں کہ آپ اس ماحول میں خود کو ایڈجسٹ کریں۔ باس کی بدمزاجی، آمرانہ طرز گفتگو یا بعض اوقات توہین آمیز رویے ہوسکتا ہے کہ آپ کا اختیار نہ ہو لیکن اس کے ردعمل پر آپ کو ا ختیار ضرور ہے لیکن جب آپ دیکھیں کہ واقعی کوئی چیز برداشت سے باہر ہے تو آپ ایسے ماحول کی تلاش کریں جہاں آپ خود کو آرام دہ محسوس کرسکیں۔ آپ میں یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ متعلقہ لوگوں سے کس طرح ڈیلنگ کرنی ہے۔ ایسی ڈیلنگ کہ آپ کا کام بھی متاثر نہ ہو اور دوسرا فرد بھی آپ کے بارے میں کوئی منفی رائے قائم نہ کرے۔ اسی طرح گھر کے ماحول کو بھی خوشگوار رکھیں۔ اچھا اور مثبت سوچیں: ماہرین نے دونوں گروپوں کے جائزے کے بعد ایک اور اہم نکتے کی نشان دہی کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے افراد جو مثبت سوچ کے مالک ہوتے ہیں وہ کم تھکتے ہیں‘ ایسے لوگ زیادہ فعال، سرگرم اور خوش اخلاق ہوتے ہیں یہ لوگ اپنے ارد گرد موجود لوگوں کی منفی باتوں پر دھیان نہیں دیتے بلکہ ان کے اچھے پہلوئوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان سے بات چیت کرتے ہیں۔ یہ لوگ سمجھوتہ کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے اور اگر کبھی ان سے غلطی ہوتی ہے تو اس کا برملا اعتراف کرتے ہیں جبکہ منفی سوچ کے حامل شخصیت کا اپنے ساتھیوں سے رویہ زیادہ اچھا نہیں ہوتا۔ وہ دوسروں کی ترقی پر خود کو کوستا رہتا ہے۔ اس میں بڑھ چڑھ کر کام کرنے اور آگے بڑھنے کے جذبے کا بھی فقدان ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ زیادہ تھکتے ہیں حالانکہ وہ دوسروں کے مقابلے میں کم کام کرتے ہیں۔
آرام کے لمحات کا تعین کریں: ہوسکتا ہے کہ آپ کو کبھی ایسا تجربہ ہوا ہو جب آپ نے دفتر سے چھٹیاں لے لی ہوں اور گھر پر وقت گزارا ہو۔ اگر آپ نے گھر میں یونہی فارغ وقت گزارا ہے تو آپ اس حقیقت سے واقف ہوں گے کہ آپ سارا دن گھر گزارنے اور آرام کرنے کے باوجود تازہ دم نہیں ہوئے بلکہ شام کو آپ کو ویسی ہی تھکن کا احساس ہوا جیسا آپ کو دفتر یا کام کاج سے واپس گھر لوٹتے ہوئے ہوتا ہے۔ دراصل ہمیں اپنے آرام کیلئے بھی وقت کا تعین کرنا چاہیے۔ حد سے زیادہ آرام آپ کو تھکا دے گا۔ فرصت کے لمحات اگر دلچسپ مصروفیات میں گزارے جائیں تو تو اس سے دل و دماغ پر زیادہ اچھا اثر پڑتا ہے۔ فارغ رہ کر بوریت کا احساس ہونے لگتا ہے اور آپ جسمانی محنت کے بغیر ہی تھکن کا شکار ہوجاتے ہیں۔
مناسب نیند لیں:نیند کا ہماری جسمانی اور ذہنی تھکن سے بہت ہی گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی نیند ( آٹھ گھنٹے کی) پوری نہیں کرتا تو وہ تھکن کا شکار رہتا ہے۔ خواتین کو مردوں کے مقابلے میں ایک گھنٹہ زیادہ نیند کی ضرورت ہوتی ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں اکثر خواتین مردوں سے کم نیند لے پاتی ہیں۔ وہ مردوں سے پہلے جاگتی ہیں اور بعد میں سوتی ہیں۔ آپ اپنی نیند پر کم ہی سمجھوتہ کیا کریں۔ کیونکہ نیند قدرت نے ایسی چیز بنائی ہے جس میں جسم نئے سیلز تیار کرتا ہے جو اگلے دن ہمیں نئے سرے سے توانائی فراہم کرتے ہیں۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ غیر ضروری اور اضافی نیند بھی ہمیں تھکانے کا سبب بنتی ہے۔ اگر آپ زیادہ دیر سوتے رہیں گے تو بھی تازہ دم نہیں ہوسکیں گے نیند اتنی ہی لیں جتنی کہ ہمارے جسم کو اس کی ضرورت ہے۔
وقت پر کھانا:ہم کو کام کرنے کیلئے توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ توانائی ہمیں غذا کے ذریعے حاصل ہوتی ہے، جب ہم کام کرتے ہیں تو توانائی خرچ ہوجاتی ہے لہٰذا جسم اس کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔ یہ ایک طرح کا ایندھن ہے جس سے ہمارے جسم متحرک رہتے ہیں، جسم اپنی ضرورت کے مطابق اس کا ذخیرہ کرتا ہے اور جیسے ہی یہ ذخیرہ ختم ہوتا ہے ہمیں بھوک کا احساس ہونے لگتا ہے۔ بھوک اس بات کی علامت ہے کہ ہمارے جسم کو توانائی کی ضرورت ہے۔ سخت جسمانی مشقت کے بعد تھکن کا احساس اس لئے ہوتا ہے کہ اس دوران ہماری جسمانی توانائی کا خرچ معمول سے پندرہ گنا تک بڑھ جاتا ہے۔ یعنی اگر ہم بھوک لگنے پر کھانا نہیں کھاتے اور کام کاج کرتے رہتے ہیں تو جسم پر اس کے انتہائی برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اندیشوں سے بچیں:تھکن کی وجوہات میں بعض اندیشوں کا بھی بہت حد تک دخل ہوتا ہے۔ کوئی فکر مندی، پریشانی، رشتہ داروں سے تعلقات کی خرابی، مستقبل کا خوف یاامتحان میں کم نمبروں وغیرہ کاخوف ہمیں تھکا سکتا ہے۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ جو لوگ مستقل پریشان رہتے ہیں ان کے جسم میں ایسے فاسد مادے پیدا ہونا شروع ہوجاتے ہیں جو جسمانی اضحملال اور ذہنی پستی کا سبب بنتے ہیں۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف ظاہری علاج ہی کافی نہیں اگر طرز زندگی میں تبدیلی لانے کے باوجد تھکن ختم نہیں ہوتی تو اس کی اور بھی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ کوئی مرض بھی ہوسکتا ہے جس کی ابھی تشخیص نہ ہوئی ہو۔ بہتر ہے کہ ایسے میں آپ ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 875 reviews.